عدالتوں میں بشمول خواتین ججز کے
ساتھ ہونے والے سلوک سے متعلق انہوں نے تنگ آ کر یہ بھی کہہ ڈالا کہ اگر اسلام میں
خودکشی حرام نہ ہوتی تو وہ خود کو سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے خودکشی کر لیتیں
کیونکہ جج کی حیثیت سے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو روزانہ کی بنیاد پر گالیوں،
توہین اور ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معزز جج
ڈاکٹر ساجدہ احمد نے یہ بھی کہا کہ اس عظیم پیشے کو غیر پیشہ ور افراد اور کالی
بھیڑوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہم وکلا تحریک کے ثمرات کا فائدہ
اٹھانے میں ناکام رہے، قانون کی بالادستی کے عظیم مقصد کے حصول میں ناکام رہے۔
ڈاکٹر ساجدہ
احمد نے خط کے آخر میں لکھا کہ میں مجبور ہوں، مایوس اور پریشان بھی کہ اپنی
تعلیمی اسناد ایک ایک کرکے عزت مآب لاہور ہائی کورٹ کے سامنے نذر آتش کر دوں یا
پھر احتجاجاً سپریم کورٹ کے سامنے تاکہ 23 کروڑ عوام میں خواتین کو اتنا حوصلہ ملے
کہ وہ آئیں اپنے جوش اور ایمان کے ساتھ کسی کی بہن، بیٹی یا بیوی یا ماں بن کر
اپنے وقار اور تکریم کے ساتھ اس عظیم قوم کی خدمت اس پیشے میں رہتے ہوئے عوام کی
خدمت کریں۔
ججز اور دیگر شہریوں کے ساتھ
مختلف عدالتوں اور کچہریوں میں وکلا کی غنڈہ گردی اور غیر مہذب رویے کے واقعات آئے
دنوں سامنے آتے رہتے ہیں جس کی کچھ روز تک مذمت اور خبریں سننے کو ملتی ہیں اس کے
بعد کیا ہوتا ہے کوئی نہیں سوچتا اور اس کے بعد پھر سے کوئی نیا واقعہ سامنے آ
جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment