آج جب عاصمہ جہانگیر کی وفات کی خبر آئی تو دل افسردہ ہوا کہ ایک انسان اور دنیا سے رخصت ہوا۔ ہر انسان نے دنیا سے جانا ہی ہے۔ موت نہ ذات دیکھتی ہے نہ جنس نہ مذہب نہ عمر یہ آجاتی ہے اور اپنے ساتھ یادیں چھوڑ جاتی ہے۔ شاید دنیا میں موت کے علاوہ کوئی ایسی شے ہوگی جس پر دو لوگ متفق ہوں لیکن یہ ایسا سچ ہے اسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا، موت کے بعد اور موت سے پہلے کے تمام امور قابل بحث اور نفاق کا باعث ہیں سوائے موت کے۔ سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر شخص کھل کر اپنی سوچ بیان کرتا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہی سوچ اس کی شخصیت کی عکاس ہے اور یہی چلن اس کا اپنی زندگی میں بھی ہے۔ اب کچھ لوگ عاصمہ جہانگیر کو بدچلن، سی آئی اے کی ایجنٹ پاکستان اور اسلام کی دشمن سمجھتے تھے تو وہ اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں کہ خس کم جہاں پاک، دوسرے لوگ ان کو انسانی حقوق کی علمبردار، عظیم وکیل آئینی ماہر اور عورتوں کے حق میں آواز کے طور پر جانتے ہیں اور ان کی وفات میں غمزدہ دکھائی دیتے ہیں۔ بات یہ سمجھیں کہ انسانیت کیا اہم نہیں ہے؟ ہم نے جب سے آنکھ کھولی ہے ہمیں اسلام اور پاکستان خطرہ میں ہی ملے ہیں۔ ایسی نجانے کیا بات ہے کہ ہم کو ہر شے سے خطرے کی بو آتی ہے یہ بات شاید ہماری کمزور سوچ کی عکاس ہے کہ ہم اپنے مسائل کو دوسرے پر تھوپ دیتے ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ الزام لگانا بہت آسان ہے اور اپنے آپ کو درست کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ نہ اسلام خطرے میں ہے نہ ہمارے پیارے وطن کو کوئی خطرہ ہے۔ اگر خطرہ ہے تو ہماری تنگ نظری سے کوتاہ نظری سے جو ہمیں سچ دیکھنے نہیں دیتے اور کئی جھوٹ تراش کر ہم دل کو مطمن کردیتے ہیں۔ کبوتر کی طرح ہم کب تک آنکھیں بند رکھے گے اور اپنے آپ کو جھوٹ کے پردے میں چھپائے رکھے گے۔ سچ تو یہ ہے کہ آزاد خیال اور آزاد سوچ ناصرف اسلام کے لیے باعث تقویت ثابت ہوگا بلکہ ملک کے لیے بھی مضبوط بیناد فراہم کرے گا۔
عاصمہ جہانگیر تجھے سلام
عاصمہ جہانگیر تجھے سلام
No comments:
Post a Comment